28 اکتوبر 2025 - 02:08
مستقبل کے شہر "نیوم" سمیت سعودی میگاپروجیکٹس ناکام / بن سلمان کے سپنے چکنا چور+ ایک اہم نکتہ

سعودی عرب کے عظیم منصوبے، جیسے نیوم اور قدیہ، جو تیل کے پیسے اور جدت کاری کے وعدوں کے ساتھ شروع کئے گئے تھے، اب مالی خسارے، طویل التواء کی دلدل میں پھنس چکے ہیں اور ویژن 2030 عملی طور پر ایک ناقابل حصول خواب بن گیا ہے / سوال یہ ہے کہ جس حکومت کے پاس حج کا انتظام ہے اس کے لئے نیوم کی ضرورت کیوں پڑی؟

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ سعودی عرب، بھاری تیل کی آمدنی پر انحصار کرتے ہوئے، حالیہ برسوں میں عظیم الشان اور پرکشش منصوبوں کا اعلان کر کے اپنے ملک کے حوالے سے ایک شاندار اور جدید مستقبل کی تصویر پیش کرتا رہا تھا۔ یہ منصولے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں "ویژن 2030" کا حصہ تھے، جن کا مقصد ملک کی معیشت کو تیل پر انحصار سے آزاد کرانا اور سعودی عرب کو سیاحت، تفریح اور ٹیکنالوجی کا مرکز بنانا تھا۔

لیکن سعودی رہنماؤں کے لئے حقیقت ان کے تصورات سے بھی زیادہ کڑوی ہے: تیل کی قیمتوں میں کمی، بڑھتا ہوا مالی خسارہ اور بہت زیادہ اخراجات نے ان منصوبوں کو تاخیر، طول و عرض اور مقدار میں میں کمی اور مالی دیوالیہ پن کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ "نیوم"، "ریڈ سی" اور "قدیہ" جیسے منصوبے، جو میڈیا کی بھرپور تشہیر کے ساتھ شروع کئے گئے تھے، اب مالی اور انتظامی ناکامیوں کی علامت بن چکے ہیں۔

شکست مگاپروژه‌های سعودی: از شهر آینده تا توقف در صحرا و پایان فانتزی‌های بن سلمان

درحقیقت، موجودہ حالات کی وجہ سے، سعودی عرب اب بڑے پرتعیش منصوبوں ـ جیسے کہ نیوم شہر ـ پر توجہ کم کر رہا ہے اور مصنوعی ذہانت، ویڈیو گیمز اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی صنعتوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے، اور یوں وہ اپنی سمت ہی، تبدیل کر رہا ہے۔

نیوم پروجیکٹ کی طرف بجٹ کا بہاؤ رک گیا ہے اور 2026 کے ڈرافٹ بجٹ میں اس پروجیکٹ کا نام تک نہیں لیا گیا ہے۔ اندازوں کے مطابق، موجودہ سال کے پہلے 9 مہینوں میں 8 ارب ڈالر تعمیراتی معاہدوں کے لئے مختص کئے گئے، جن میں سے صرف تقریباً 20 ملین ڈالر نیوم کے لئے مختص کئے گئے۔

شکست مگاپروژه‌های سعودی: از شهر آینده تا توقف در صحرا و پایان فانتزی‌های بن سلمان

ایسا کیوں ہؤا؟

اس سال تیل کی قیمتوں میں 10 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے اور سعودی عرب کا بینکاری نظام سیالیت (liquidity) کے دباؤ کا شکار ہے؛ اور سعودی سرمایہ کاری فنڈ فوری منافع بخش ٹیکنالوجیوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس لئے بجٹ اب "ہیومین" (Humain) کمپنی اور "الات" (Alat) کمپنی - جو اسمارٹ مینوفیکچرنگ مراکز تعمیر کرے گی - کی طرف بہہ رہا ہے۔ اب سے، اگر کوئی پروجیکٹ "منافع بخش" نہیں ہے، تو اس کے رک جانے کا امکان بہت زیادہ ہے۔

نیوم پروجیکٹ، جو 2017 میں وسیع پیمانے پر تشہیر کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، ویژن 2030 کا ایک اہم حصہ تھا، لیکن اس کی تکمیل اب 2045 تک ملتوی کر دی گئی ہے، جو اصل منصوبے سے ایک بہت بڑی تاخیر ہے۔ آج، ابتدائی چمک دمک کی جگہ مقدار اور طول و عرض میں کمی، ملازمین کی برطرفی اور کام کے تعطل نے لے لی ہے۔

سعودی عرب کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ: "ملک کا بجٹ خسارہ 2026 تک جاری رہے گا اور بہت سے ملٹی ٹریلین ڈالر کے اقتصادی منصوبے 2030 کے بعد۔۔۔ تک مؤخر کر دیئے گئے ہیں۔"

دوسری طرف، سعودی اسٹیٹ ویلتھ فنڈ کا غیر ملکی سرمایہ کاری میں 100 ارب ڈالر اکٹھا کرنے کا ہدف ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے اور صرف تقریباً 33 ارب ڈالر کا ہدف حاصل ہو سکا ہے۔

بالآخر ان منصوبوں کے بجٹ کے لئے، حکومت قرضے بڑھانے پر مجبور ہو گئی ہے۔ سعودی سرمایہ کاری فنڈ (PIF) کو بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے آرامکو کے حصص کی فروخت اور مسلسل کئی بین الاقوامی بانڈز کے اجرا کا سہارا لینا پڑا ہے۔ قرضوں کا یہ حجم درحقیقت ویژن 2030 کی ناکامی عملی ثبوت ہے۔

البته، بن سلمان کے منصوبوں کی ناکامی کی علامتیں بہت پہلے ظاہر ہو چکی تھیں۔ بلومبرگ نے 2023 میں نیوم پروجیکٹ کی ناکامی کے ابتدائی اشاروں کی طرف توجہ دلائی تھی۔ بلومبرگ کی تحقیق، جو 25 ملازمین کے انٹرویوز اور 2700 صفحات کے اندرونی دستاویزات کے جائزے پر مشتمل تھی، نے ظاہر کیا کہ منصوبہ ناکام ہو چکا ہے۔ بلومبرگ نے دی لائن (نیوم پروجیکٹ کے مرکزی منصوبے) کی حیثیت میں کمی کے بارے میں لکھا: "سعودی عرب کو نیوم (NEOM) کے بجٹ کے حصول میں سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔"

آخر میں ذکر کرنا ضروری ہے کہ محمد بن سلمان کے بلند پروازہ منصوبے، خاص طور پر ویژن 2030 اور نیوم، دی لائن، ریڈ سی پراجیکٹ اور قدیہ جیسے منصوبے، اس حقیقت کی واضح مثال ہیں کہ تیل کا پیسہ اکیلے پائیدار ترقی پیدا نہیں کر سکتا۔

یہ منصوبے، جو میڈیا کی ہلچل اور جدت کاری (Modernization) کے وعدوں کے ساتھ شروع کئے گئے تھے، اب بھاری اخراجات، ناقص انتظام، طویل مدتی التوا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے مالی اور انتظآمی ناکامیوں کی دلدل بن چکے ہیں۔ نیوم، جس کی تخمینی لاگت 1.5 ٹریلین ڈالر ہے، جس کا رقبہ گھٹ کر 2.4 کلومیٹر رہ گیا ہے، اور جس کی تکمیل 2045 تک مؤخر ہو گئی ہے، اس بڑی ناکامی کی علامت بن گیا ہے۔ قدیہ اور ریڈ سی جیسے دیگر منصوبے بھی اسی قسم کے انجام سے دوچار ہیں، جو سعودی رہنماؤں کے لئے اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آنے والے کئی عشروں تک، نیوم جیسے منصوبوں کے بجائے، سعودی عرب کی سب سے پرکشش سیاحتی جگہیں اس کے صحرائی بدو اور اونٹ سوار ہوں گے۔

اہم نکتہ:

سوال یہ ہے کہ جس حکومت کے پاس حج کا انتظام ہے اس کے لئے نیوم کی ضرورت کیوں پڑی اور اس نے حجاج کی تعداد میں کمی کیوں کر دی؟ بلاشبہ سعودی حکمرانوں کو لاحاصل فضول خرچیوں کے بجائے اپنا سرمایہ حج اور حرمین شریفین پر خرچ کرنا چاہئے، اور عجیب و غریب قسم کے سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے بجائے حجاج اور عمرہ گزاروں کی تعداد میں اضآفہ کرنا چاہئے؛ مکہ اور مدینہ اور اسلامی تاریخ کے اہم مقامات کو ترقی دینا چاہئے۔ حجاج اور عمرہ گزآروں کے لئے معمول کی خدمات کے علاوہ، کسی مادی کشش کی ضرورت نہیں ہوتی، اور وہ اچھا خاصا پیسہ بھی لاکر سعودی عرب میں خرچ کرتے ہیں اور اگر مختلف اسلامی ممالک کے حج کوٹے میں اضافہ کیا جائے، تو حج کی خواہش میں برسوں تک منتظر رہنے والے بھی حج کی سعادت سے فیضیاب ہونگے اور سعودی عرب کو اچھا خاصا منافع بھی حاصل ہوگا۔

جس کے پاس مکہ اور مدینہ ہے، اس کو نئوم کی تعمیر اور حج کوٹہ کم کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ سعودی حکومت نے دو ارب مسلمانوں کو کیوں نظر انداز کیا جو اگر ممکن ہو تو سر کے بل مکہ اور مدینہ کی زیارت کو آئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha